عجیب تھی وہ عجب طرØ+ چاہتا تھا میں
وہ بات کرتی تھی اور خواب دیکھتا تھا میں

وصال کا ہوکہ اس کے فراق کا موسم
وہ لذتیں تھیں کہ اندر سے ٹوٹتا تھا میں

چڑھا ہوا تھا وہ نشہ کے کم نہ ہوتا تھا
ہزار بار ابھرتا تھا ڈوبتا تھا میں

بدن کا کھیل تھیں اس Ú©ÛŒ Ù…Ø+بتیں لیکن
جو بھید جسم کا تھا جاں سے کھولتا تھا میں

پھر اس طرØ+ کبھی سویا نہ اس طرØ+ جاگا
کہ نیند روØ+ میں تھی اور جاگتا تھا میں

کہاں شکست ہوئی اور کہاں صلہ پایا
کسی کا عشق کسی سے نباہتا تھا میں